مانا کہ ہے سفر کا تقاضہ سبک روی

پر تیز رو جنون ، تھکا جا رہا ہوں میں

اب کون سوچنے کی مشقت کرے بھلا

جاؤ مرے فنون ، تھکا جا رہا ہوں میں

کاندھوں پہ جو بنامِ محبت دھرا گیا

بھاری ہے وہ ستون ، تھکا جا رہا ہوں میں

اک عمر ہو چلی ہے کہ زخموں پہ ہاتھ ہے

رکتا نہیں ہے خون ، تھکا جا رہا ہوں میں

ہر گام تازیانہِ قسمت کا خوف ہے

غارت گرِ سکون ، تھکا جا رہا ہوں میں

زیرِ زمینِ خواب ، سرنگوں کا سلسلہ

اور اس کے اندرون ، تھکا جا رہا ہوں میں

ہر پرت کے تلے ہے نئی پرت کرب کی

کھلتے نہیں فسون ، تھکا جا رہا ہوں میں

ظاہر زبانِ حال سے ہر اک شکست ہے

ائے حالتِ زبون ، تھکا جا رہا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]