مت پوچھئیے کہ راہ میں بھٹکا کہاں کہاں

روشن میں میرے نقشِ کفِ پا کہاں کہاں

تِریاک اپنے زہر کا اپنے ہی پاس تھا

ہم ڈھونڈتے پھرے ہیں مداوا کہاں کہاں

لمحوں کے آبشار میں اک بلبلہ ہوں میں

کیا سوچنا کہ جائے گا جھرنا کہاں کہاں

تکیے پہ محوِ خواب ، تہہِ تیغ ہے کہیں

لَو دے رہا ہے شعر ہمارا کہاں کہاں

پَر سوختہ ہیں ، رات بڑی ، فاصلے بہت

لاکھوں چراغ ، ایک پتنگا کہاں کہاں

سائے میں بیٹھنے کی جگہ سوچتے ہیں ہم

پہنچا نہیں درخت کا سایا کہاں کہاں

چُوڑی کا ایک ریزہ چُبھا تھا کہیں اُسے

میں ایک زخم چُوم رہا تھا کہاں کہاں

تھے ہر صدف میں اشکِ ندامت بھرے ہوئے

کاٹے گئے ہیں دستِ تمنا کہاں کہاں

اک گردِباد ہے کہ مظفرؔ مری انا

مجھ کو اُڑائے گا یہ بگولا کہاں کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]