مجھ کو یقیں ہے آئے گی امید بر کبھی

دیکھوں گا میں بھی روضۂ خیر البشر کبھی

ہٹتی نہ مجھ سے چاند کی رشکی نظر کبھی

بن جاتا سنگ راہ میں ان کا اگر کبھی

بن جاؤں رشک مہر و مہ و نجم آسماں

"​ہوجائے مصطفیٰ کی زیارت اگر کبھی”

آقا کی انگلیوں کے اشارے کا تھا کمال

ہوتا اِدھر ہلال تو ہوتا اُدھر کبھی

سوچا کہ وصفِ شاہ مدینہ لکھوں مگر

ساکت زباں ‌ہے محو تحیر ہے درک بھی

ماں کی دعائیں اس لئے لیتا ہوں ہر گھڑی

ہوتی نہیں ہے ماں کی دعا بے اثر کبھی

پہنچیں گے ہم بھی روضۂ سرور پہ ایک دن

دے گی ہماری شاخ طلب بھی ثمر کبھی

چہرے پہ مل لے غازۂ خاک در رسول

آنکھیں ملا نہ پائے گا تجھ سے قمر کبھی

من کی مرادیں پائے گا روضے پہ ان کے جا

خالی نہیں پھراتے شہ بحر و بر کبھی

ہوتا ہے منسلک جو دیار رسول سے

پھرتا نہیں جہان میں وہ در بدر کبھی

عاصم تھا رعب ایسا رخ نور بار پر

ان کو کسی نے دیکھا نہیں بھر نظر کبھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]