مجھے موت دے، نہ حیات دے

مرے حوصلے کو ثبات دے

مجھے نقدِ جاں کی طلب نہیں

مجھے خواہشوں سے نجات دے

ترے پاس آیا ہوں دور سے

مجھے دیکھنے دے قریب سے

مجھے اپنے رخ سے جدا نہ کر

مری چشمِ نم کو زکوٰۃ دے

مرے دل میں یار بسا ہوا

نہ جدا ہوا، نہ خفا ہوا

نہ مٹے نگاہ کی تشنگی

اسے ایک موجِ فرات دے

کبھی دامِ غم سے نکل سکوں

کہ دوامِ عشق میں ڈھل سکوں

کبھی لڑکھڑا کے سنبھل سکوں

ذرا میرے ہاتھ میں ہات دے

کوئی شام، شامِ فراق سی

کوئی صبح، صبحِ وصال سی

مرے گمشدہ، مرے پاس آ

مجھے روز و شب سے نجات دے

کہیں آنسوؤں سے جلا ہوا

کہیں سسکیوں سے بجھا ہوا

ہوں چراغِ شام بنا ہوا

مجھے ایک چاندنی رات دے

ترے سامنے تجھے مل سکوں

کبھی خود کو خود سے ملا سکوں

کوئی ایسا لمحہ نصیب کر

کوئی ایسی وصل کی رات دے

مری آرزوؤں کا پاس رکھ

مجھے اپنے غم میں اداس رکھ

مجھے زینؔ تیری طلب نہیں

مجھے میرا حصہء ذات دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]