محبت ہے سراپا دردِ دل کیا

عذابِ اضطرابِ مستقل کیا

ہوا آدم کو حکمِ اھبطوا کیوں

ضروری تھا جہانِ آب و گل کیا

ہے تجھ سے ملتے رہنے کا بہانہ

ادائے فرض و سنت کیا، نفل کیا

مچلتی آرزوئیں ہیں کہاں اب

ہوئی ہیں حسرتوں میں منتقل کیا

محبت ہی سے قائم اس کی عظمت

محبت ہی نہیں تو پھر یہ دل کیا

دیارِ عشق میں آتش نوا بن

نوائے سرد و آہِ مضمحل کیا

لہو رِستے نظرؔ گزرا زمانہ

یہ ہوں گے زخمِ دل اب مندمل کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]