محبتوں میں نئے طرز انتقام کی شام

کسی کے ساتھ گزاری کسی کے نام کی شام

ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا

گزر گئ ہے سفر میں مرے قیام کی شام

نہ کوئی خواب دکھایا نہ کوئی عہد کیا

بدن ادھار لیا بھی تو اس سے شام کی شام

مسافروں کے لیے دشت کیا سرائے کیا

ہمیں تو ایک سی لگتی ہے ہر مقام کی شام

مٹائے کی مری تکمیل کی سحر مجھ کو

بنارہی ہے مجھے میرے انہدام کی شام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]