مدت پہ گاؤں پہنچا تو بدلا ہوا ملا

شہروں کا رنگ اس پہ بھی چڑھتا ہوا ملا

دیکھا تو اعتماد کے رشتے اداس تھے

اپنوں سے آج اپنا بھی ڈرتا ہوا ملا

چھوٹی سی کوٹھڑی میں بھرا گھر سمٹ گیا

یوں خاندان شہر میں بستا ہوا ملا

اس کے نئے فلیٹ کا کمرہ عجیب تھا

سورج کی روشنی کو ترستا ہوا ملا

سلجھانے جس کے پاس گیا اپنی الجھنیں

خود اپنے مسئلوں میں وہ الجھا ہوا ملا

گھر آیا جب تو ساری تھکن دور ہو گئی

چہرہ غریب بیوی کا ہنستا ہوا ملا

دل کا چراغ راہِ تمنا میں دوستو

جلتا ہوا ملا ، کبھی بجھتا ہوا ملا

پہچان کر متینؔ وہ پہچانتا نہ تھا

دریا نئے مزاج کا امڈا ہوا ملا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]