مدتوں تک رِسا تھا پہلے بھی

زخم کاری لگا تھا پہلے بھی

نام اُن کا لیا تھا پہلے بھی

ہوش میں آ گیا تھا پہلے بھی

تنِ تنہا اٹھا تھا پہلے بھی

بند رستہ کھُلا تھا پہلے بھی

آپ نے رہبری کے پردے میں

یاد ہے کیا کیا تھا پہلے بھی

آدمی آدمی کا خوں پی لے

سچ کہیں کیا سنا تھا پہلے بھی

حسنِ دنیا وہی فریب انگیز

دل مِرا مر مٹا تھا پہلے بھی

بس کہ توفیق دے خدا جب بھی

بابِ توبہ کھلا تھا پہلے بھی

باز آ جاؤ جور سے اپنے

ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی

اک نظرؔ پھر اُسی توجہ کی

دردِ دل مٹ گیا تھا پہلے بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]