مر بھی جائے تو تری بات سے جی اُٹھتا ہے

دلِ بے صوت کرامات سے جی اُٹھتا ہے

تیرا انعام فزوں ہے، ترا احسان رفیع

کہ گدا اپنے سوالات سے جی اُٹھتا ہے

رات کے پچھلے پہر دیدۂ حیرت کے قریں

ایک لمحہ ہے جو لمعات سے جی اُٹھتا ہے

نعت گو عجز سے بُنتا ہے حروفِ مدحت

خامہ پھر تیری عنایات سے جی اُٹھتا ہے

آنکھ کو رہتی ہے گو صبحِ کرم کی خواہش

خواب تو وصل کی سوغات سے جی اُٹھتا ہے

شوق اِک ہجر زدہ مرگ کا سنسان وجود

خواہشِ دید کی خیرات سے جی اُٹھتا ہے

دل بہت دیر سے ہے خانۂ بے نُور و ضیا

ہو عنایت کہ تری بات سے جی اُٹھتا ہے

اوڑھ لے کوئی اگر خواہشِ احرامِ ثنا

زیست کی سرحدِ میقات سے جی اُٹھتا ہے

کیا عجب ہے تری آمد کا یہ احساسِ دروں

وصل کا لمس، خیالات سے جی اُٹھتا ہے

اُن کی مدحت کی ہے مقصودؔ جُداگانہ لگن

حرف خود شوخیٔ نغمات سے جی اُٹھتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]