کھُلا بابِ اثر الحمد للہ
ہُوا اذنِ سفر الحمد للہ
ربیعِ نُور مہکا ہے بہَر سُو
سجے دیوار و در الحمد للہ
اُدھر ہے نعت کی طلعت فشانی
زباں پر ہے اِدھر الحمد للہ
وہ تیری رحمتِ عالَم پناہی
اماں میں ہے خطر، الحمد للہ
سخن میں بحرِ مدحت موجزن ہے
بیک موجِ نظر، الحمد للہ
سراپا بے نیازِ خوفِ دوراں
ترے دریوزہ گر، الحمد للہ
سُنا بادِ صبا وہ مژدہ پھر سے
کہوں بارِ دگر، الحمد للہ
بہ فیضِ صدقۂ اسمِ معالی
عطا ہے بیشتر، الحمد للہ
دِکھاتی ہے مجھے عکسِ مدینہ
یہ میری چشمِ تر، الحمد للہ
نظر آئے گا جب مقصودؔ، گنبد
کہوں گا دیکھ کر، الحمد للہ