مری شاکی ہے خود میری فغاں تک

کہ تالو سے نہیں لگتی زباں تک

کوئی حسرت ہی لے آئے منا کر

مرے روٹھے ہوئے دل کو یہاں تک

جگہ کیا درد کی بھی چھین لے گا

جگر کا داغ پھیلے گا کہاں تک

اثر نالوں میں جو تھا وہ بھی کھویا

بہت پچھتائے جا کر آسماں تک

فلک تیرے جگر کے داغ ہیں ہم

مٹائے جا مٹانا ہے جہاں تک

وہ کیا پہلو میں بیٹھے اٹھ گئے کیا

نہ لیں جلدی میں دو اک چٹکیاں تک

کوئی مانگے تو آ کر منتظر ہے

لیے تھوڑی سی جان اک نیم جاں تک

اٹھانے سے اجل کے میں نہ اٹھتا

وہ آتے تو کبھی مجھ ناتواں تک

جلالؔ نالہ کش چپکا نہ ہوگا

وہ دے کر دیکھ لیں منہ میں زباں تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]