مری شکست ہی کم سانحہ نہ تھی اس پہ

غرورِ عشق کا ماتم ، الگ قیامت ہے

لہو لہو سہی سینہ مگر مبارک ہو

میں چھو کے دیکھ چکا ہوں کہ دل سلامت ہے

بلندیاں چلو نیزے کی ہی سہی لیکن

تمہارا سوختہ سر اب بھی سرو قامت ہے

مرے ہی گھر میں جو رہتی ہے ایک مدت سے

مری ہی شکل و شباہت کی اک ندامت ہے

گلوں کا ہو کہ لبوں کا ہو یا لہو کا ہو

یہ لال رنگ مرے عشق کی علامت ہے

یہ اور بات کہ دستار چبھ رہی ہو تجھے

ترا فقیر تو آسودہِ ملامت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]