مری طلب تو مری فکرِ نارسا تک ہے

یہ حرف و معنیٔ مدحت تری عطا تک ہے

جہاں بھی ہوں تری رحمت کے دائرے میں ہوں

مری خطا بھی تو آخر مری خطا تک ہے

اُتر رہے ہیں یہ رنگوں کے قافلے پیہم

ُتو اذن دے، انہیں جانا تری ثنا تک ہے

خجل ضرور ہوں، نامطمئن نہیں ہوں مَیں

کہ سلسلہ تری بخشش کا انتہا تک ہے

نئے معانی میں ڈھلنے تھے حرفِ فتح و شکست

حسینؑ ایسے نہیں آیا کربلا تک ہے

ورائے پردۂ نورِ نہاں، کسے معلوم

خرد تو محوِ سفر پہلے نقشِ پا تک ہے

مدینے جانے کا مخصوص اذن تھا مقصودؔ

کرم ہوا ہے کہ یہ سلسلہ گدا تک ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]