مری نظر میں تری آرزو نظر آئے

مجھے وہ آنکھ عطا کر کہ تو نظر آئے

کلام اپنا سمو دے وجود میں ایسا

کہ میری چپ میں تری گفتگو نظر آئے

میں جب بھی آئنہ دیکھوں غرورِ ہستی کا

تو ایک عکسِ عدم روبرو نظر آئے

ہٹا دے آنکھ سے میری یہ خواہشات کے رنگ

جو چیز جیسی ہے بس ہوبہو نظر آئے

ہجوم شہر تماشہ میں گم نہ ہو رستہ

نشان راہ ترا کوبکو نظر آئے

رواں دواں رہے جب تک مرا سفینۂ جاں

منارِ نور ہدیٰ چار سو نظر آئے

خلوصِ فکر عطا کر اور ایسا حسنِ عمل

کہ فکرِ دنیا تری جستجو نظر آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]