مرے سخن میں بھی حرفِ ثبات سا کچھ ہو

غزل بہت ہوئی اب مجھ سے نعت سا کچھ ہو

یہ میرا سانسں مرے دل پہ سبز رنگ کرے

کہ مجھ میں شہرِ مدینہ کی بات سا کچھ ہو

درود پڑھتا ہوں ہونٹوں سے اور یہ سوچتا ہوں

روئیں روئیں سے اسی واردات سا کچھ ہو

انہیں کا نام لکھا جائے جا بجا مجھ میں

سو دل کے پاس قلم اور دوات سا کچھ ہو

دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں میں خود میں

سو مجھ میں گریہ گزاری کی رات سا کچھ ہو

اس ایک اسم کا سکہ ہو میرے کاسے میں

مرے بھی ہاتھ میں کل کائنات سا کچھ ہو

یہ میری آنکھ کھلے آپ کے زمانے میں

میں سو کے اٹھوں تو ناممکنات سا کچھ ہو

اور اب یہ چاہتی ہے مجھ سے میری ذات کبیر

مری کمائی میں نقدِ نجات سا کچھ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]