مرے ٹوٹے ہوئے دل کو میسر کب سماں ہوں گے

حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری المعروف چھانگلا ولی موجِ دریا

مرے ٹوٹے ہوئے دل کو میسر کب سماں ہوں گے

جہاں تیرے قدم ہوں گے مرے بوسے وہاں ہوں گے

چلائی تھی جو پتھر کی وہ ناو تو نے دریا میں

حسیں دریا کی لہروں پر کئی بپھرے نشاں ہوں گے

تری اولاد کا وہ گھر مثالی ہے زمانے میں

جہاں پر ذکر تیرا ہو بہت روشن مکاں ہوں گے

وہ جادوگر جو مارا تھا ترے جوتے کی ٹھوکر نے

ہوا کے دوش سے گر کر ملے ٹکڑے کہاں ہوں گے ؟

جنھیں اسلام کی دولت عطا کی تو نے گاؤں میں

ابھی جنات کی نسلوں میں رہتے وہ جواں ہوں گے

دیے تو نے محبت کے جلائے تھے "زیارت” میں

رہیں گے حشر تک روشن جو زیرِ آسماں ہوں گے

ڈرانے راستے میں اژدہا تجھ کو جو آیا تھا

بنایا تو نے پتھر کا، نشاں اُس کے کہاں ہو گے؟

وہ اک سردار ہاتھی پر جو لڑنے کے لیے آیا

ہوا تھا غرق مٹی میں تو سب سنتے فغاں ہوں گے

جنھیں اسلام کی دولت عطا کی تو نے شفقت سے

ارم میں کوثری موجوں میں ان کے کارواں ہوں گے

ترے اُس دور کی رفعت جسے معلوم ہو قائم

نہ جانے اُس کی آنکھوں میں حسیں کتنے سماں ہوں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]