مطلعِ نعت ہے وراے گماں

مطلعِ نعت ہے ورائے گماں

نطق مفلوج سر جھکائے زباں

جانے کس دم ، کرم وہ فرما دیں

روز اُمید پر سجائے مکاں

مرکزِ شوق ہے وہ گنبدِ سبز

عاصیوں کے لیے ہے جائے اماں

بعدِ سدرہ سفر کدھر تھا، کوئی

گر بتائے تو کیا بتائے کہاں

جاے وصلِ حبیب و رب تھی عجب

تھا سبھی کچھ وہاں سوائے مکاں

نعتِ آقا کی برکتیں ہیں فقط

میرے نامے کے جو گھٹائے زیاں

سر اُٹھاؤں جو سنگِ در سے ترے

شوق بارِ دگر گرائے وہاں

پیش کرتا ہوں رو بہ روے حرم

دل کی دف پر ہی نغمہ ہائے فغاں

آج منظر پناہ لے اُن کی

ہو نہ جائے کہیں فنائے زماں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]