مظہر شاہ مدینہ ، جلوۂ پروردگار

ہیں علی کونینِ عشق و معرفت کے تاجدار

ہے کتاب فضل میں ان کا سر فہرست نام

ہیں وہ شہر علم کا دروازۂ عظمت شعار

کہہ کے کرتی ہے شجاعت ان کے روضے کا طواف

"لافتیٰ الاعلی لاسیف الا ذوالفقار”

جس طرف پہنچے علم نصرت کا گاڑا ہے ادھر

جس طرف گزرے ہوا ظلمت کا دامن تار تار

یا علی مشکل کشا کہکر سفینہ چھوڑ دے

دیکھ پھر تیرا سفینہ کیسے ہو جاتا ہے پار

آگیا تھا نام لب پر حیدر کرار کا

منزلیں قدموں میں خود آئیں سمٹ بے اختیار

کفر کے ایوان میں پھر زلزلہ آجائے گا

نعرۂ مولا علی دل سے لگاؤ ایک بار

اے مرے مولا علی وہ آپ ہی کی آل ہے

آبروئے دین و ملت کا ہے جس پر انحصار

نفسِ پیغمبر جو ہے خیر النسا کی شان ہے

کیوں نہ پھر اے نور ؔذکر اس کا کروں میں بار بار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]