معرکہ گاہِ جہاں میں ہیں سلامت اب تک

ہاتھ آیا ہے یہی مالِ غنیمت اب تک

وقت کٹتا ہی نہ تھا کاٹ کے رکھ دیتا تھا

عمر گزری ہے کہ گزری ہے قیامت اب تک

یوں تو منسوخ ہوئے سارے صحائف لیکن

دل کو ٹھہرا ہے ترا زکر تلاوت اب تک

صورتِ حال بدکتی تو بدلتے دن بھی

اور حالات کی بدلی نہیں صورت اب تک

جو بھی چہرے تھے مظاہر تھے تمہارے یعنی

ہو چکی تم سے کئی بار محبت اب تک

دل ہے نادار سو قسطوں میں ادا کرتا ہے

اس پہ واجب ہے ترے عشق کی قیمت اب تک

اک اداسی کہ پسِ مرگ ابھر آئی ہے

یوں تو ہر شے سے رہی دل کو شکایت اب تک

کوئی شہناز کہیں ہے تو اسے جا کے کہو

ایک زیدی کہ ہے جاں دادہِ وحشت اب تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]