منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا

بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا

میں جب چلوں گا تو ریگزاروں میں الفتوں کے کنول کھلیں گے

ہزار تم میرے راستوں میں محبتوں کے سراب لکھنا

فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے

اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا

وہ میری خواہش کی لوح تشنہ پہ زندگی کے سوال ابھرنا

وہ اس کا حرف کرم سے اپنے قبولیت کے جواب لکھنا

گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر

جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]