موجوں کا سانس ہے لبِ دریا رکا ہوا

شاید ابھر رہا ہے کوئی ڈوبتا ہوا

بیٹھا ہے عشق یوں سرِ منزل تھکا ہوا

رستے میں جیسے کوئی مسافر لٹا ہوا

کچھ دن سے رنگِ روئے جفا ہے اڑا ہوا

اے خونِ آرزو تری سرخی کو کیا ہوا

کیا منزلت ہے اپنی سرِ آستانِ دوست

جیسے ہو راہ میں کوئی پتھر پڑا ہوا

آنکھوں کا حال جیسے کنول ہوں بجھے ہوئے

دل کا یہ رنگ جیسے چمن ہو لٹا ہوا

کل تیری جستجو تھی مِرا مقصدِ حیات

پھرتا ہوں آج اپنا پتہ پوچھتا ہوا

میرا ہدف ہے کون مجھے خود پتہ نہیں

اِک تیر ہوں کمانِ ازل سے چلا ہوا

دل مرکزِ نگاہ تھا منزل تھی سامنے

بھٹکے وہیں دماغ جہاں رہنما ہوا

ان کا تو کیا شمار جو سجدے قضا ہوئے

بندے کو وہ بھی یاد نہیں جو ادا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]