مُجھے اک رس بھری کا دھیان تھا، ھے اور رھے گا

یہی مصرعہ مِرا اعلان تھا، ھے اور رھے گا

سپاھی ڈھونڈتے پھرتے ھیں جس کو شہر بھر میں

وھی باغی مِرا مہمان تھا، ھے اور رھے گا

تُجھے مِل تو نہیں پایا مگر مَیں جانتا ھُوں

کہ تُجھ میں عشق کا امکان تھا، ھے اور رھے گا

کسی کو اپنے دل کی مُستقل ٹھنڈک نہ جانو

بدن تو ایک آتش دان تھا، ھے اور رھے گا

مِرے شعروں پہ طعن و طنز کرنے والے لوگو

یہ لہجہ ھی مری پہچان تھا، ھے اور رھے گا

قسم ھے آگ سے اُٹھتی ھُوئی چنگاریوں کی

محبت میں بہت نُقصان تھا، ھے اور رھے گا

کبھی گل پُھول تو تھے ھی نہیں کمرے میں لیکن

تہی دامن سا اک گُلدان تھا، ھے اور رھے گا

تُم اپنے ذھن سے اُس کو کُھرچ کر خوش نہ ھونا

تمہارے دل میں تو رحمان تھا، ھے اور رھے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]