میرا اظہارِ محبت اُسے ناکافی ہے

ائے مرے ظرفِ سخن بھاڑ میں جائے تُو بھی

دل کو کم بخت لگے آگ اگر لگتی ہے

اور ائے دل کی چبھن بھاڑ میں جائے تُو بھی

رونقِ بزمِ تصور تھی کہیں جو نہ رہی

گردشِ چرخِ کہن بھاڑ میں جائے تُو بھی

جا، مری روح ، جہاں بھی تجھے جانا ہے ، جا

اور ائے میرے بدن بھاڑ میں جائے تُو بھی

نیند آتی ہے شبِ وصل زلیخا کو تری

یوسفِ مصرِ سخن بھاڑ میں جائے تُو بھی

دشتِ ویران ، فنا ہوں تو بلا سے میری

رونقِ باغِ عدن بھاڑ میں جائے تُو بھی

آخرِکار کہیں کا بھی نہ چھوڑا دل کو

جذبہِ دل کی لگن بھاڑ میں جائے تُو بھی

حیف ہے ائے مری خودساختہ وحشت تُف ہے

میرے بے ساختہ پن بھاڑ میں جائے تُو بھی

شدتِ کرب کہ الفاظ میں ڈھلتی ہی نہیں

حرف و تخلیق کے فن بھاڑ میں جائے تُو بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]