میم سے آتا ہے نامِ محبوبِ احد

میم درونِ اسمِ محمد اور احمد

انگوٹھوں کو پہلے میم پہ چومتا ہوں

جھومتا ہوں جب آتا ہے پھر میم پہ شد

میم کی قسمت تو دیکھو کیا خوب ہوئی

میم سے ان کا نام ہے جو ہیں نورِ احد

سب حرفوں ،لفظوں کا مرکز میم ہے بس

میم میں ہی پنہاں ہے کُل علم الابجد

میم ہی مرکز ہے کارِ مدحت کا اور

نطق کو نورِ میم سے ہی جاری ہے رسد

مجھ کو سکھایا بچپن سے ماں باپ نے میم

قبر میں بھی وہ میم کرے گا میری مدد

دونوں عالم میم کے دریوزہ گر ہیں

میم کے بحرِ فیض سے ملتا ہے بے حد

میم ہی وجہِ تخلیقِ دو عالم ہے

رب نے خود ہی میم کو ٹھہرایا مفرد

میم کے فیضِ نور سے منظر روشن ہے

شعر و سخن میں میم کو رکھتا ہے سرحد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]