اردوئے معلیٰ

Search

سخن کا، نطق و بیان کا مدعا ہوا ہے مقالِ طیبہ

ہر ایک عرضی کا اپنی محور کیا ہوا ہے وصالِ طیبہ

 

کسی پرائے کو اپنے حالات کیوں بتاؤں گدا ہوں اُن کا

کہ مجھ کو ہر بار اُن کے در سے عطا ہوا ہے نوالِ طیبہ

 

فقیر کاسہ بہ کف ہے آقا صدا لگاتا ہے قریہ قریہ

لبوں پہ اپنے مدام اُس نے رکھا ہوا ہے سوالِ طیبہ

 

مدینہ طیبہ ہی تا قیامت قیام گاہِ حسین تر ہے

تبھی تو رشکِ جناں و ام القرٰی ہوا ہے جمالِ طیبہ

 

مرے وطن کے حسین پرچم کا وہ ستارہ ہے پنجتن سے

اور اس کے سبزے پہ لہلہاتا جَڑا ہوا ہے ہلالِ طیبہ

 

خداے قادر کے ایک کُن سے فدائیانِ نبی کی دھن سے

وطن یہ آلِ نبی کے صدقے عطا ہوا ہے مثالِ طیبہ

 

کرم کی نوری زمیں کے ہر اک کنویں کا پانی ہے اتنا میٹھا

یقیں ہے جنت کے پانیوں میں ملا ہوا ہے زُلالِ طیبہ

 

یقین ہے وہ ہی چارہ گر ہیں وہی مدینے کا اذن دیں گے

مرے تصور میں پے بہ پے بس سجا ہوا ہے خیالِ طیبہ

 

اس ایک گنبد کو دیکھنے سے ہی کِھل سا اُٹھتا ہے سارا منظر

مریضِ ہجرِ نبی کی خاطر دوا ہوا ہے وصالِ طیبہ

 

درونِ خانہ فلک سے تارے اُتر کے آئے مبارکیں دیں

مکانِ منظر میں آج جلوہ نما ہوا ہے ہلالِ طیبہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ