میں اشکبار ہوں نا ممکنہ کی خواہش میں

میں اشکبار ہوں ناممکنہ کی خواہش میں

نمک مثال گھلے جا رہا ہوں بارش میں

دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع

مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں

خمارِ شام، غمِ تیرگی، امیدِ سحر

عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں

بجا ہے طعنۂ باطل مری دلیلوں پر

ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں

یہ جبرِ راہ گزر ہے، سفر نہیں میرا

کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں

وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیؔر

بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]