میں اہل زر بھی نہیں، اہل سلطنت بھی نہیں

سو میرا کوئی خبر گیر خیریت بھی نہیں

زمین کیوں مجھے چشم حسد سے دیکھتی ہے

اگرچہ میں کوئی شخص فلک صفت بھی نہیں

کسی نے پھر مرے جذبوں کا آج خون کیا

بڑا عجیب ہوں میں، طالب دیت بھی نہیں

اے سادہ لوح تو یاں کامیاب نئیں ہوگا

ترے وجود میں تھوڑی منافقت بھی نہیں

مجھے کسی کی ضرورت نہیں شمارش کو

کہ آستین کے یہ سانپ ان گنت بھی نہیں

وہ درس دینے لگا ہے خدا شناسی کا

خدا تو دور جسے اپنی معرفت بھی نہیں

پرائے دیس میں آکر پناہ لی میں نے

کہ میرے دیس میں تھوڑی سی امنیت بھی نہیں

یقین کیسے کروں خط یہ تو نے بھیجا ہے

کہ اس پہ مہر بھی اور تیرا دستخط بھی نہیں

خود اسکے بچے بھی کرتے نہیں سلام اسے

غریب باپ کی اب اتنی حیثیت بھی نہیں

میں کیسے مان لوں یہ تیرا عکس ہے جانم

کہ اسکی تجھ سے ذرا سی مشابہت بھی نہیں

ہمارے جیتے جی غیروں سے رسم و راہ نہ رکھ

ہمارے دل میں یہ غم ڈھونے کی سکت بھی نہیں

ہمیشہ اسکو منانے میں پہل کرتے ہو

سو اسکا یوں ہی خفا ہونا کچھ غلط بھی نہیں

میں اب کے ایسا لٹا ہوں رہ محبت میں

کہ فرش پاؤں تلے اور سر پہ چھت بھی نہیں

دہی کا لفظ مذکر ہے یا مونث ہے

میں کیا بتاؤں کہ میں صاحب لغت بھی نہیں

مری لکھی ہوئیں غزلیں پڑھے تو کون پڑھے

اب اس قدر بھی حسیں نوری کی لکھت بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]