میں بہک سکوں یہ مجال کیا ، مرا رہنما کوئی اور ہے

مجھے خوب جان لیں منزلیں ، یہ شکشتہ پا کوئی اورہے

مری التجا ہے یہ دوستو ، کبھی تم جو سوئے حرم چلو

تو بنا کے سر کو قدم چلو ، کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

وہ حبیبِ ربِ کریم ہیں ، وہ رؤف ہیں وہ رحیم ہیں

انہیں فکر ہے مری آپ کی ، انہیں چاہتا کوئی اور ہے

بہ جز اُن کے رحمتِ دو جہاں بہ جز اُن کے عرش کا میہماں

یہ ملا جواب کوئی نہیں ، یہ سوال تھا کوئی اور ہے ؟

ہے خبر تجھے شہہِ این و آں ، مری وجہِ راحتِ قلب و جاں

نہ ترے سوا کوئی اور تھا ، نہ ترے سوا کوئی اور ہے

یہ گمان تھا کئی سال سے ، یہ یقین ہے کئی روز سے

مرے دل سے گنبدِ سبز کا یہ معاملہ کوئی اور ہے

جو تمہاری جالی سے متصل ، ہے ستوں کے پیچھے خجل خجل

نہیں میں نہیں وہ مریضِ دل ، نہ مرے سوا کوئی اور ہے

میں جو دور ارضِ حرم سے تھا ، ہوئی خلدِ گوش حسیں صدا

ہے اسی میں ماجدِؔ بے نوا ، کہ یہ قافلہ کوئی اور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]