میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں

وہ کبھّے ہتھ سے میرے کول گذرے کار کے وچ میں

اکیلے تو نہیں ملتے جدوں بھی اب وہ ملتے ہیں

کبھی چھ سات کے وچ میں کبھی دوچار کے وچ میں

میں بولا، بادشاہو! میری اِک چھوٹی سی گَل سُن لو

وہ بولے، چھڈو جی! کیا گل سنیں بازار کے وچ میں

لبوں کے وِچ لئے پھرتا ہے تُو گُل قند او ظالم

مِلا گل قند تھوڑی شربتِ دیدار کے وچ میں

کبھی مینوں بھی لے چل ظالماں تُو وچ کلفٹن کے

کدوں تک میں رہوں گا “گولی مار“ کے وچ میں

سویرے اُٹھ کے منگھے پیر کے وچ ایہہ دعا مانگی

خدا مجھ کو بھی پہنچا دے تِرے دربار کے وچ میں

وہ میری “ہیر“ ہے اور میں ہوں “رانجھے خاں“ مجید اُس کا

ہمارا ذکر ہے ہر کوچہ و بازار کے وچ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]