میں عشق عشق کی گردان میں پڑا ہوا تھا

پرانا جسم کہ سامان میں پڑا ہوا تھا

تمھارے ساتھ کئی دن گزارنے کے بعد

خیال رات کو دالان میں پڑا ہوا تھا

ہمارے مسئلے سارے نمٹ چکے تھے مگر

معاملہ کوئی تاوان میں پڑا ہوا تھا

میں ساری رات اسی کشمکش میں سو نہ سکا

نظارا دن کا بیابان میں پڑا ہوا تھا

قلم نے تیرے ہی اعزاز میں کہا ہوا ہے

قصیدا لکھا تری شان میں پڑا ہوا تھا

تمام کرسیاں تو بچ گئیں ہیں بارش سے

مگر وہ صوفہ جو اک لان میں پڑا ہوا تھا

تباہی کو بھی کسی سے نبھاہ کرنا تھا

ہمارا پاؤں ہی طوفان میں پڑا ہوا تھا

وہاں مکان بنانے کا ہے ارادہ مرا

پلاٹ ایک جو مردان میں پڑا ہوا تھا

معاملات کئی اور زندگی کے تھے

جو فائدہ تھا وہ نقصان میں پڑا ہوا تھا

ہزار مشکلیں جھیلیں مگر زبیر اب بھی

عجیب رخنہ مری جان میں پڑا ہوا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]