میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے

تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں

تیرے وصف کیا میں کروں بیاں تیری بات بات کمال ہے

میں ہوں بے نوا تو ہے بادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا

میں ہوں ایک بھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے

تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ بھی گھر تیرا وہ بھی گھر

جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال ہے

تیری ذات عالی شہ عرب کہاں میں کہاں یہ مری طلب

جو ملا، ملا وہ ترے سبب مرا اس میں کیسا کمال ہے

نہیں تیرے بعد کوئی نبی ہوئی ختم تجھ پر پیمبری

تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے

میں یہ کیوں کہوں کہ غریب ہوں شہ دوسرا کے قریب ہوں

میں تو آسؔ روشن نصیب ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]