میں کہاں جاؤں تیرے در کے سوا

ہے کہیں کیا اماں؟ اِدھر کے سوا

تیری چاہت ہے میرا سرمایہ

ورنہ دنیا میں کیا ہے شر کے سوا

منتظر اذنِ حاضری کے ہیں

مضمحل جان چشمِ تر کے سوا

عشق تیرا ہو منکشف مجھ پر

پھر رہے کچھ نہ اِس اثر کے سوا

چاہیے اور کیا ؟ بھلا مجھ کو

میرے آقا کی اِک نظر کے سوا

مجھ کو ذہنِ رسا عنایت ہو

کشفِ پرواز ، بال و پر کے سوا

اِک ترے اسم کا اُجالا ہو

قلب میں آخرت کے ڈر کے سوا

نعت گوئی ہے مرتضیٰؔ اعزاز

ہو عقیدت بھی جو ہنر کے سوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]