نا قابلِ شکست بھلا کون رہ سکا

ہم تھے ، ہمارے خواب تھے، پیمان تھے ترے

ابھرا ہے نقشِ مرگ سرِ پردہِ شہود

اب کون مانتا ہے کہ امکان تھے ترے

ہے اک دفعہ کا ذکر کہ ہوتا تھا ایک دل

اور اس کے اختیار میں ارمان تھے ترے

ہارے رفو گران بصد عجز آخرش

اتنے قبائےعشق پہ احسان تھے ترے

تو نے ہوس کے شہر میں آقا تو پا لیے

لیکن گنوا دیے جو غلامان تھے ترے

دل دیکھتا ہے چشمِ تصور سے ، کیا کریں

ورنہ تمام شہر بیابان تھے ترے

نیچے گلی میں ہیں تو وہی ناشناس ہم

وہ لوگ کیا ہوئے جو قدردان تھے ترے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]