نامور شاعر وحشت رضا علی کلکتوی کا یوم وفات
آج نامور شاعر وحشت رضا علی کلکتوی کا یوم وفات ہے۔
رضا علی وحشت کلکتوی 8نومبر1818 میں شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔اس وقت یہ شہر عالم میں انتخاب کہلاتا تھا،کیونکہ دہلی کے حسن کو انگریزیوں نے پامال کر دیا تھا ۔بار بار اجڑنے والی دلّی اس بار غدر کے نام پر بری طرح اجڑگئی تھی۔جبکہ کلکتہ جو برصغیر میں انگریزوں کا مستقر تھا اس لئے یہاں کا حسن روز افزوں ترقی پہ تھا۔تاج برطانیہ سے جڑا شہر تھا، اس لئے یہاں ترقی کی رفتار بھی تیز تھی۔اس شہر کی کشش لوگوں کو کھنیچے لا رہی تھی۔
اسی کشش میں رضا کے دادا بھی یہاں بھی آئے تھے۔اس دور میں ان کے دادا حکیم غالب بھی بہت مشہور تھے۔لوگ کہتے تھے ان کے پاس مردہ بھی جا کر زندہ ہو جاتا تھا ۔مگر یہ شہرت انہیں دلّی سے کلکتہ آنے کے بعد ملی۔
ابتداء میں انہوں نے اپنا مطب نواب سراج الدولہ کے شہر علی پور میں کھولا تھا،مگر علی پور کے مقابلے میں کلکتہ زیادہ ترقی یافتہ تھااس لئے یہ درمیانی 6 میل کا فاصلہ طے کر کے وہ کلکتہ منتقل ہو گئے۔ یہاں آتے ہی ان کی قسمت کھل گئی ۔ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور دولت برسنے لگی۔ ایسے امیر گھرانے میں رضا نے جنم یا اس لئے باپ اور دادا دونوں کا چہیتے تھے۔ان کے والد مولوی شمشاد علی نے طب کے بجائے تعلیم کا میدان منتخب کیا اور انگریزی سرکار سے وابستہ ہو گئےمگر عمر نے وفا نہ کی اور وہ رضا کو یتیم کر گئے،رضا اس وقت لڑکپن میں تھے۔اسی کم عمری میں انہوں نے یتیمی کا داغ سہا مگر غریبی تو تھی نہیں لہٰذا کوئی پریشانی زیادہ حائل نہ ہوئی تعلیمی سلسلہ چلتا رہا۔مگر زیادہ عرصہ تعلیم حاصل نہ کر سکے،کیونکہ جائداد آہستہ آستہ بکتی جا رہی تھی۔1898 میں اس رضا علی وحشت نے انٹرنس پاس کیا اور پھر 1903 میں امپریل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہو گیا۔
ان کے ذمّہ ترجمہ کا کام لگایا گیا۔وہ فارسی مکتوبات کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا کرتے تھے۔ یہ وہ درخواستیں ہوا کرتی تھیں جو بر صغیر کےکونے کونے سے تاج برطانیہ کو بھیجی جاتی تھیں۔
دن بھر بیٹھے قلم گھسیٹتے رہو اس بنا پر انہیں یہ کام پسند نہیں آیا مگر مجبوری تھی اس لئے کئے جا رہے تھے۔اس دوران انہیں حکومت انگلشیہ نے 1921 میں خان بہادر کا خطاب عطا کیا۔ویسے بھی 1910 میں ان کا مجموعہ کلام”دیوان وحشت”کے عنوان سے منظر عام پر آچکا تھا۔1926میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج کی بنیاد پڑی تو رضا نے نوکری سے استعفٰی دے دیا، اور اس کالج میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے آگئے۔
ان کی شاعری کی دھوم پورے کلکتہ میں مچی ہوئی تھی۔ ہر مشاعرے کی وہ ضرورت سمجھے جاتے تھے۔ مرشد آباد ، عظیم آباد ، ڈھاکہ ، ہوگلی،جیسے بڑے بڑے شہروں میں ان کے شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔
ان کا شمار اساتذہ میں ہونے لگا تھا۔اردو ادب کی خدمات پر انہیں حکومت برطانیہ کی جانب سے خان بہادر کا خطاب دیا گیا۔ اب وہ کافی معتبر مانے جانے لگے تھے۔ان کی شہرت بھی وسعت اختیار کر چکی تھی۔ شہر میں بصد ادب یاد کئے جانے لگے تھے ۔5 سال علم ادب کی خدمت کے بعد اب انہیں پھر نوکری کرنے کی سوجھی کیونکہ جائداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
افتاو زمانہ نے وقت کے ساتھ چلنے کی چاہ نے سب کچھ بکوا دیا تھا۔1941میں لیڈی برے برن کالج کلکتہ میں لیکچرار شپ کی نوکری کر لی۔1سال تک اردو پڑھاتے رہے، پھر انہیں فارسی کا شعبہ دے دیا گیا۔یو ں بھی وہ اردو و فارسی میں ہی شاعری کیا کرتے تھے۔1948 تک وہاں تدریسی عمل انجام دیتے رہے پھر اس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد چونکہ پاکستان کا قیام عمل میں آچکا تھا اور کلکتہ و بہار و مشرقی یو پی کے مسلمان بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان منتقل ہو چکے تھے جن میں ان کے شاگردوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی ان سب کے بےحد اصرار پر انہوں نے کا فی غور و فکر کے بعد ہجرت کی ٹھانی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے صاحبزادے ذہنی معذور تھے جنہیں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا تھا،اس کے انتقال نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔
بیٹے کی موت نے انہیں دلبرداشتہ کر دیا تھا۔
بالآخر 1950 کو وہ کلکتہ سے ہجرت کر کےمشرقی پاکستان کے مرکزی شہر ڈھاکہ میں آگئے۔ مگر یہ شہر انہیں راس نہ آیا ۔ زندگی کے چراغ کا تیل ختم ہو چکا تھا 1952میں انہوں نےزندگی سے ناتا توڑ لیا ۔
بعد از مرگ ان کے شاگردوں نے دوسرا دیوان “ترانہ وحشت” شائع کرایا۔انہیں بنگال کا غالب کہا جاتا تھا۔انہیں یہ لقب مولانا حالیؔ نے دیا تھا ۔ڈھاکہ کے عظیم پورہ قبرستان میں ان کی قبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی ہے عشق کی مشکل تو مشکل آساں ہے
ملا ہے درد وہ دل کو جو راحت جاں ہے
تری نگاہ سمجھتی ہے یا نہیں دیکھوں
لب خموش میں کوئی سوال پنہاں ہے
مراد ذوق خرابی کی اب بر آئے گی
کہ دل کی تاک میں وہ چشم فتنہ ساماں ہے
فراغ حوصلگی پر جنوں کی شاہد ہے
وہ ایک چاک جو دامن سے تاگریباں ہے
یہ بے خودی ہے مرے عیش زندگی کی کفیل
نگاہ شوق ابھی محو روئے جاناں ہے
بلا کشوں کی دعا ہے کہ اے خدا نہ مٹے
جگر کا داغ کہ چشم و چراغ ہجراں ہے
ہوا ہے شوق سخن دل میں موج زن وحشتؔ
کہ ہم صفیر مرا رعب سا سخنداں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد آ کے بڑھا دو دل کا تم یہ کام تمہیں کیا مشکل ہے
بیمار بنانا آساں ہے ہر چند مداوا مشکل ہے
الزام نہ دیں گے ہم تم کو تسکین میں کوئی کی نہ کمی
وعدہ تو وفا کا تم نے کیا کیا کیجئے ایفا مشکل ہے
دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو
وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے
آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے
انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے
موقوف کرو اب فکر سخن وحشتؔ نہ کرو اب ذکر سخن
جو کام کہ بے حاصل ٹھہرا دل اس میں لگانا مشکل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
ہزارہا نقش آرزو کے بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں
وفا مری معتبر ہے کتنی جفا وہ کر سکتے ہیں کہاں تک
جو وہ مجھے آزما رہے ہیں تو میں انہیں آزما رہا ہوں
کسی کی محفل کا نغمۂ نے محرک نالہ و فغاں ہے
فسانۂ عیش سن رہا ہوں فسانۂ غم سنا رہا ہوں
زمانہ بھی مجھ سے نا موافق میں آپ بھی دشمن سلامت
تعجب اس کا ہے بوجھ کیونکر میں زندگی کا اٹھا رہا ہوں
نہ ہو مجھے جستجوئے منزل مگر ہے منزل مری طلب میں
کوئی تو مجھ کو بلا رہا ہے کسی طرف کو تو جا رہا ہوں
یہی تو ہے نفع کوششوں کا کہ کام سارے بگڑ رہے ہیں
یہی تو ہے فائدہ ہوس کا کہ اشک حسرت بہا رہا ہوں
خدا ہی جانے یہ سادہ لوحی دکھائے گی کیا نتیجہ وحشتؔ
وہ جتنی الفت گھٹا رہے ہیں اسی قدر میں بڑھا رہا ہوں