مجھے اب مار دے یا پھر امر کر

مجھے ائے ضبط ، کچھ تو معتبر کر

چلو جو بات تھی وہ کھل گئی ہے

تو ہے ناکام ، قصہ مختصر کر

وہ اس منزل سے آگے جا چکا ہے

دلِ ناکام ، آ پھر سے سفر کر

بھری رہتی ہیں آنکھیں آج تک بھی

اسے دیکھا تھا میں نے آنکھ بھر کر

مجھے قربان کرنا ہے ، تو کر بھی

محبت کا تماشہ درگزر کر

جسے بیچا گیا ہے کوڑیوں میں

کبھی اس شاہزادے کی خبر کر

تجھے رودادِ وحشت کیا سناؤں

میں لوٹا ہوں قیامت سے گزر کر

تو خود کو جابجا گردانتا تھا ؟

سو رقصِ مرگ بھی اب دربدر کر

میں اب کیا منہ دکھاؤں شاعری کو

مرے دستِ ہنر کو بے ہنر کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]