نت نئے رنگ بدلتا ہے کسک مانگتا ہے

زخم سچا ہو تو ہر وقت نمک مانگتا ہے

میں نے جس شخص کو صحرائی سمجھ رکھا تھا

اس کے چہرے سے ہر اک پھول مہک مانگتا ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر دہکے بدن میں تاحال

ایسا شعلہ جو لپک دے کے لپک مانگتا ہے

میرے دشمن مرا ادنیٰ سا تعارف یہ ہے

میں وہ سالار نہیں ہوں جو کمک مانگتا ہے

اے طلسماتی خدو حال کے مالک تجھ سے

آخری بار کوئی پہلی جھلک مانگتا ہے

اُس بدن کی یہ فضیلیت ہے کہ چھونے سے قبل

جست سا ہاتھ بھی سونے سی چمک مانگتا ہے

وہ چٹانی لب و لہجہ نہیں پگھلا ورنہ

میرے اشکوں سے تو سورج بھی تپک مانگتا ہے

میں تجھے اس لیے چھونے سے بھی کتراتا ہوں

مجھ سے ہر بار ترا جسم دھنک مانگتا ہے

شاعری سہل نہیں تازہ زمانوں میں فقیہہ

شعر سادہ بھی لکھوں لہجہ کڑک مانگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]