نظر میں تاب کہاں تیرے نُور کی خاطر

ترا جمال قیامت ہے طُور کی خاطر

بہت ہی دیر رہا منتظر جہانِ سخن

جہانِ غم میں ہمارے ظہور کی خاطر

اگرچہ عشق ہمیں خود کشی ہوا لیکن

دکھا رہے ہیں تماشہ حضور کی خاطر

گہن زدہ ہے غمِ روزگار سے وحشت

کہاں بنے تھے ہم ایسے امور کی خاطر

سفرکیا ہے بڑی دیر ، دیر سے آ کر

قصد کیا تھا بہت دور ، دور کی خاطر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]