نظر کا دھوکہ ہے نام و نمود لاموجود

نظر کا دھوکہ ہے نام و نمود لا موجود

ترے بغیر نظامِ شہود لا موجود

حضور آپ سے قائم ہے ہستیٔ معلوم

حضور خود سے تو میرا وجود لا موجود

یہ اب جو تان کے سینہ کھڑا ہے سر پہ مرے

شبِ لقا میں تھا چرخِ کبود لا موجود

کہاں سے لاؤں تناسب میں کوئی حرفِ ثنا

ترے جمال کی حد و حدود لا موجود

فقط عقیدہ نہیں ہے، خُدائی ضابطہ ہے

کوئی نماز بغیرِ درود لا موجود

اسی لیے تو کھڑے ہیں سبھی قطاروں میں

کہ تیرے جیسا کوئی، شاہِ جُود، لا موجود

لقائے خاص سے کھینچا گیا خطِ تنسیخ

کہ اِس سے آگے کوئی بھی صعود لا موجود

تجھے خُدا نہیں کہنا، نہیں کہا بخدا

سوائے اس کے تمامی قیود لا موجود

نگاہِ شوق کے پہرے ہیں حرفِ نعت کے گرد

کسی غزل کا یہاں پر ورود لا موجود

وجود باقی ہمارا ہے ’’انت فیہم‘​‘​ سے

جہاں میں ہو گئے عاد و ثمود لا موجود

حضور! آپ ہیں مقصودِؔ خالقِ مقصد

بجز تھی آپ کے زیبِ کشود لا موجود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]