نواب شاہ ! آپ کا اعلیٰ مقام ہے

اک میں ہی کیا یہ سارا زمانہ غلام ہے

نواب شاہ ! آپ تو اسکا قرار ہیں

ہاتھوں میں جس کے دونوں جہاں کا نظام ہے

چوکھٹ پہ لاکے رکھنا مرا کام تھا ، کیا

شاداب کرنا دل کو مرے تیرا کام ہے

نواب شاہ ! دیکھا ہے میں نے یہ بارہا

منگتا تمہارے در کا بڑا شادکام ہے

جب سے ہے ذکر تیرا مرا شیوۂ حیات

خلق خدا میں میرا بڑا احترام ہے

آیا ہے جو بھی بھر کے گیا دامن مراد

کیا تیرے پاس دولت خیرالانام ہے

آسیب اک نگاہ بھی دیکھے مجال کیا

دہلیز کی جبیں پہ رقم تیرا نام ہے

بکھری ہے چاندنی یہاں شہر رسول کی

ہمرنگ صبح نو ترے کوچے کی شام ہے

ہے خانقاہ عشق میں مسند تری بچھی

تو مسجد خلوص و وفا کا امام ہے

میخانۂ سلوک کا پیر مغاں ہے تو

ہاتھوں میں سب کے تیری عنایت کا جام ہے

تیری نگاہ کا ہو اشارہ جسے نصیب

اس پر خدا گواہ جہنم حرام ہے

وہ مسکرا رہے ہیں مری سمت دیکھ کر

اب تو غم و الم کا مرے اختتام ہے

رکھنا ہمیشہ اسکو کرم کی نگاہ میں

یہ نورؔ تیرا بندہ ہے ،تیرا غلام ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]