نویدِ طیبہ رسی جب کبھی نہیں آئی

گلِ مراد پہ بھی تازگی نہیں آئی

جو بخشے خوابوں کو انوارِ سیدالکونین

ہنوز آنکھوں میں وہ نیند ہی نہیں آئی

بشر تو اب بھی بھٹکتا ہے ظلمتوں میں یونہی

نبی کے دیں کی جہاں روشنی نہیں آئی

قریبِ منبرو محراب دل پکار اٹھا

’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘٭

حصولِ معرفتِ سیدالبشر کے بغیر

عمل میں بھی رَمَقے زندگی نہیں آئی

خوشا مدینے پہنچنے کی آرزو ہے جواں

خوشا کہ دل کی تڑپ میں کمی نہیں آئی

عزیزؔ ! دعویِ عشقِ رسول جھوٹا ہے

اگر عمل میں ہی شائستگی نہیں آئی

"٭فیض احمد فیض…صبحِ آزادی، نسخہ ہائے وفا…ص۱۱۶
جمعرات: ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۳۳ھ / ۱۴؍جون۲۰۱۲ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]