نُور یا نُور کا ہالہ ہے مواجہ تیرا ؟

حدِ ادراک سے بالا ہے مواجہ تیرا

خُلد کے روضہ سے نکلیں تو ذرا سا آگے

بس اُجالا ہی اُجالا ہے مواجہ تیرا

زائرِ خستہ، پسِ تابِ سخن ، عجز بہ لب

اور بخشش کا حوالہ ہے مواجہ تیرا

حیرتوں ، حُرمتوں والی ہے تری ارضِ کرم

طلعتوں ، نکہتوں والا مواجہ تیرا

ایک لمحے میں زمانوں کے سفر کا حاصل

کیا حضوری میں نرالا ہے مواجہ تیرا

کس لطافت میں تراشی گئی طلعت اس کی

رب نے کس نُور میں ڈھالا ہے مواجہ تیرا

شوق میں ساعتِ احساسِ طرَب کا محور

حُسن میں نقشِ دو بالا ہے مواجہ تیرا

آنکھ تو محوِ تماشا نہ ہُوئی دید کے بعد

دل نے کس طَور سنبھالا ہے مواجہ تیرا

سبز ہیں اِس کے پس و پیش کے منظر سارے

درمیاں میں گُلِ لالہ ہے مواجہ تیرا

کشتِ مقصودؔ تر و تازہ رہے گی ہر دَم

سامنے خیر کا جھالا ہے مواجہ تیرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]