نہ تیری آرزو دو دن نہ تیری آرزو برسوں
تجھے پا کر کیا کرتا ہوں اپنی جستجو برسوں
مجھے دیر و حرم جانا ضروری تھا مرے ساقی
مرے ہونٹوں کو ترسے ہیں ترے جام و سبو برسوں
بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آیا
خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ آرزو برسوں
خزاں آتے ہوئے ڈرتی ہے ایسے گلستانوں میں
جہاں کانٹے پیا کرتے ہیں پھولوں کا لہو برسوں
اُنہی کا تیر ہے وہ آپ ہی آ کر نکالیں گے
یونہی چبھتی رہے نوکِ ہلالِ آرزو برسوں
جبینِ ماہ پر لکھے بَاِظہارِ سحر ہم نے
شب غم کی سیاہی سے حروفِ آرزو برسوں