نہ قیدِہست نہ صدیوں کی حد ضروری ہے

نبی سے عشق ہمیں تا ابد ضروری ہے

سکونِ روح کی خاطر خدا کی حمد کے بعد

لبوں پہ نعت کا ہونا اشد ضروری ہے

جزائے کارِ محبت میں ان کے کیا کہنے

جنہیں بہشت سے ان کی سند ضروری ہے

کمالِ اشک کو لازم ہے سنگِ در ان کا

کہ جیسے پھول کا شبنم کو خد ضروری ہے

فزوں ہے جس سے یہ تعدادِ انبیا کا فروغ

ہر اک جمال میں وہ اک عدد ، ضروری ہے

تری بقا ترے مجموعہِ عدم سے ہے

طلب کا چھوڑ تردد ، رسد ضروری ہے

درِحبیبِِ خدا ہے سنبھل کے جانا ، وہاں

حیا ہے پہلا سلیقہ ، خرد ضروری ہے

تری اٹھان تو مضمر ہے تیرے جھکنے میں

نسب وہاں پہ ہے لازم نہ قد ضروری ہے

خلافِ حکمِ نبی دل میں خواہشِ دنیا

قدم اٹھائے تو پھر اُس کا رد ، ضروری ہے

خدا سے کہہ کے وہ بھجوائیں گے ابابیلیں

انہیں لگے گا جہاں پر مدد ضروری ہے

یہ میم حمد بھی کرتی ہے اور محبت بھی

تبھی تو نامِ محمد پہ شد ضروری ہے

تو چاہتا ہے کہ مٹی بھی تیرے بوسے لے

تو پھر درود تجھے تا لحد ضروری ہے

درود پڑھتے ہیں اور تیرا اسم چومتے ہیں

کہ ہر مقام پہ تیری مدد ضروری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]