نہ مر سکے گا یہ اس بار بھی سکون کے ساتھ

دسمبر آ کے ملایا ہے جس نے جون کے ساتھ

وہ گلستان کی صورت ہرے بھرے ہیں آج

جو پھول بوٹے بنائے تھے میں نے خون کے ساتھ

کہ دشت میں بھی اکیلا رہا میں ساری عمر

نہ چل سکی تری وحشت مرے جنون کے ساتھ

میں گھر میں ساتھ ہوں سب کے مگر اکیلا ہوں

مرا گزرتا ہے ٹائم خود اپنے فون کے ساتھ

کہ درد حد سے گزرتا ہے میرا جب بھی کبھی

لپٹ کے روتا ہوں طاہر کسی ستون کے ساتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]