نہ ٹھہری جب کوئی تسکین دل کی شکل یاروں میں

تو آ نکلے تڑپ کر ہم تمہارے بے قراروں میں

کسی کے عشق میں درد جگر سے دل یہ کہتا ہے

ادھر بھی آ نکلنا ہم بھی ہیں امیدواروں میں

وہ ماتم بزم شادی ہے تمہاری جس میں شرکت ہو

وہ مرنا زندگی ہے تم جہاں ہو سوگواروں میں

تعلی سے یہ نفرت ہے کہ بعد مرگ خاک اپنی

اگر اٹھتی بھی ہے جا بیٹھتی ہے خاکساروں میں

ہمارے دل نے ہم سے بے وفائی کر کے کیا پایا

وہاں بھی جا کے ٹھہرایا گیا بے اعتباروں میں

وہ کھینچوں گا جلالؔ آہیں کہ اس کی خاک اڑا دیں گی

فلک نے پیس ڈالا ہے سمجھ کر خاکساروں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]