نہیں لیا کوئی احسانِ باغباں ہم نے

بھری بہار میں چھوڑا ہے گلستاں ہم نے

سفر میں رہ گئے پیچھے مگر یہ کم ہے کیا

ہر ایک موڑ پہ چھوڑے ہیں کچھ نشاں ہم نے

تمھارے نام کی افشاں سے جو سجائی تھی

کسی کی مانگ میں بھر دی وہ کہکشاں ہم نے

بچا کے لائے تھے بس اک چراغ آندھی سے

جلا کے رکھ دیا محفل کے درمیاں ہم نے

جلا ہے زہر خموشی میں ایک عمر خیال

بنا اصیل تو کھولی ہے پھر زباں ہم نے

ضرورتوں کے سفر میں غرورِ نسبت حرف

تجھے گنوایا ہے جانے کہاں کہاں ہم نے

مقیم راہِ سفر ہیں، سروں پر اپنے ظہیرؔ

غبارِ راہ کو رکھا ہے سائباں ہم نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]