نیند آتی کہاں ہے آنکھوں میں

رات ہر دم جواں ہے آنکھوں میں

ہونٹ تو مسکراتے رہتے ہیں

دولتِ غم نہاں ہے آنکھوں میں

وہ بظاہر ذرا نہیں بدلی

اجنبیت عیاں ہے آنکھوں میں

ڈار سے کونج کوئی بچھڑی ہے

وحشتوں کا سماں ہے آنکھوں میں

ہم جہاں روز چھپ کے ملتے تھے

وہ کھنڈر سا مکاں ہے آنکھوں میں

آنکھوں آنکھوں میں ہوتی ہیں باتیں

نقش گویا زباں ہے آنکھوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]