واہ کیا حسن کیسا جوبن ہے

کیسی ابرو ہیں کیسی چتون ہے

جس کو دیکھو وہ نور کا بقعہ

یے پرستان ہے کہ لندن ہے

عبث ان کو مسیح کہتے ہیں

مار رکھنے کا ان میں لچھن ہے

حسن دکھلا رہا ہے جلوۂ حق

روئے تاباں سے صاف روشن ہے

رسم الٹی ہے خوب رویوں میں

دوست جس کے بنو وہ دشمن ہے

حال عشاق کو بتاتے ہیں

اور ابھی خیر سے لڑکپن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]