وفا کے جرم میں اکثر پکارے جاتے ہیں

ہم اہل ِ عشق ، محبت میں مارے جاتے ہیں

ہماری لاش تو گرتی ہے جنگ لڑتے ہوئے

مگر جو پیٹھ پہ برچھے اُتارے جاتے ہیں

عمامہ سجتا ہے آخر امیرِ شہر کے سر

ہمارے جیسے عقیدت میں وارے جاتے ہیں

میں روک سکتا نہیں خاک کو بکھرنے سے

سمندروں کی طرف چل کے دھارے جاتے ہیں

بھلے ہو کارِ محبت یا کارِدنیا زبیر

ہمارے ساتھ ہمیشہ خسارے جاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]