ولیِ خالق اکبر ہیں خواجۂ اجمیر

عطائے ساقیِ کوثر ہیں خواجۂ اجمیر

حسن حسین کا مظہر ہیں خواجۂ اجمیر

بہار گلشن حیدر ہیں خواجۂ اجمیر

محال ہے کوئی لوٹے جو در سے خالی ہاتھ

عنایتوں کا سمندر ہیں خواجۂ اجمیر

طواف گاہ دل و جاں ہیں سید بغداد

نگاہ شوق کا محور ہیں خواجۂ اجمیر

دیار ہند معطر ہے جس کی خوشبو سے

حقیقتاً وہ گل تر ہیں خواجۂ اجمیر

ہماری چشم یقیں نے یہ صاف دیکھا ہے

حیات قبر کے اندر ہیں خواجۂ اجمیر

غریب ہاتھ کو دیتے ہیں تاج و تخت کی بھیک

جو تیرے در کے گدا گر ہیں خواجۂ اجمیر

سپہرِ فضل و مروت کے ماہتاب مبیں

سخا کے مہر منور ہیں خواجۂ اجمیر

میں ان کو لعل و گہر سے حسین جانتا ہوں

جو تیرے کوچے کے پتھر ہیں خواجۂ اجمیر

کوئی فضا ہمیں حیران کر نہیں سکتی

کہ زورِ بازو و شہپر ہیں خواجۂ اجمیر

ہماری خوبیِ قسمت کا نورؔ ذکر ہی کیا

ہمارے مونس و یاور ہیں خواجۂ اجمیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]